گزشتہ کئی دنوں سے دھرتی کے ایک قابلِ فخر سپوت میجر (ر) عامر کے خلاف کمپین چلائی جا رہی ہے حالانکہ میجر (ر) عامر آئی ایس آئی کے ایک ایسے روشن ستارے ہیں جنہوں نے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر اسرائیلی حملے کے منصوبے کو ناکام بنایا۔ میجر (ر) عامر کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ایک اسرائیلی جاسوس کی گرفتاری‘ افغان ایجنسی کے ہیڈ‘ جو سفارتکار کے روپ میں اسلام آباد چھپا ہوا تھا‘ کو بے نقاب کرنا قابلِ ذکر ہیں۔ افسوس! قوم کے اس بیٹے کو ‘آپریشن مڈ نائٹ جیکال‘ نامی ایک سازش کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ آج کل یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس آپریشن میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل بھی شامل تھے۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے والد اُس وقت آئی ایس آئی میں نہیں تھے۔ مڈ نائٹ جیکال کی حقیقت اب سب کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ اصل میں ایک سٹنگ آپریشن تھا۔ میجر (ر) عامر کے بقول‘ اس آپریشن میں مجھے پھنسایا گیا‘ جو آڈیو‘ وڈیو ریکارڈنگز اور دیگر ثبوت میرے خلاف پیش کیے گئے‘ وہ سب جھوٹ کا پلندہ تھے۔ جنرل (ر) اسلم بیگ نے بعد ازاں میرے ساتھ ہوئی زیادتی کو تسلیم کیا۔ اس دوران حکومت نے میرے بچوں کو اٹھا لیا‘ ملٹری کورٹ کے بعد سول کورٹ میں بھی کیس چلایا۔ جنرل درانی‘ بریگیڈیئر ایم آئی نے میرے ساتھ کوئی پرانی پرخاش نکالی کیونکہ میں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میجر (ر) عامر کا مؤقف ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے تب کے سربراہ جنرل شمس الرحمن کلو کو اعتماد میں لے رکھا تھا اور لیگی رہنما ملک نعیم اور پیپلز پارٹی کے اراکین سے ملاقاتیں اُن کے علم میں تھیں۔ اس آپریشن کا مقصد بینظیر حکومت کے حوالے سے سازش کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ میجر (ر) عامر کے مطابق وہ ایسی ملا قاتوں کا تمام احوال جنرل کلو کو رپورٹ کر رہے تھے‘ اس کے باوجود ان کے دفتر کو تالا لگا دیا گیا اور جب جی ایچ کیو میں ٹرائل شروع ہوا تو انہوں نے تمام بریفنگز کی کاپیاں ملٹری کورٹ میں پیش کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری بورڈ کی رپورٹ میں بھی ان کے مؤقف کی تائید ہوئی اور جنرل کلو سے confront کرنے کو کہا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے کہ میرا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ میجر (ر) عامر نے اگرچہ اپنے غلط ثابت ہونے پر کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہیں جبری ریٹائر کیا گیا۔
آپریشن مڈ نائٹ جیکال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ یہ آپریشن پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی کی سیاسی وفاداریاں خریدنے کی کوششوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ کمانڈر بریگیڈیئر امتیاز اس آپریشن کو لیڈ کر رہے تھے۔ بریگیڈیئر امتیاز نے پیپلز پارٹی کے چند ایم این ایز کو توڑنے کی کوشش کی‘ جب اس کی خبر اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو مسعود خان کو ہوئی تو انہوں نے آڈیو‘ وڈیو ریکارڈنگز وزیراعظم بینظیر بھٹو تک پہنچا دیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شمس الرحمن کلو نے اس سے لاعلمی کا اظہار کر دیا اور سازش کا سارا ملبہ بریگیڈیئر امتیاز پر ڈال دیا جس کی لپیٹ میں میجر عامر بھی آ گئے‘ جو اس میں شامل ہی نہیں تھے۔ جنرل کلو 1986ء میں ہی فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ دسمبر 88ء میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت قائم ہوئی اور بینظیر وزیراعظم بنیں تو لیفٹیننٹ جنرل حمید گل آئی ایس آئی سربراہ تھے۔ بینظیر بھٹو عسکری معاملات میں جنرل (ر) نصیر اللہ بابر اور بھٹو صاحب کے ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل (ر) امتیاز سے مشاورت کرتی تھیں۔ جب ایک بریفنگ کے لیے وزیراعظم آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر گئیں تو جنرل حمید گل نے نصیر اللہ بابر پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے بینظیر سے کہا کہ وہ تنہا تشریف لائیں۔ بینظیر بھٹو نے جنرل حمید گل کو عہدے سے ہٹا دیا اور عسکری تاریخ میں پہلی بار‘ 1989ء میں ایک ریٹائر جنرل‘شمس الرحمن کلوکو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ اس اہم ترین تقرری کے لیے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے مشاورت کرنا بھی مناسب نہ سمجھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل کلو کی تقرری سے جنرل اسلم بیگ اور بینظیر بھٹو کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے۔ 6 اگست 1990ء کو جب صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی تو جنرل کلو بھی ساتھ ہی رخصت ہو گئے۔ میجر (ر) عامر کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے میں رہتے ہوئے میں ذاتی طور پر میں سیاست میں ملوث نہیں ہوا اور میں آج بھی اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ دورانِ ڈیوٹی میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا بلکہ اس دھرتی کا قرض چکایا۔
میجر (ر) عامر کا سب سے بڑا کارنامہ 1987ء میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھارت اور اسرائیل کے حملے سے بچانا تھا۔ وہ اس وقت سیکٹر کمانڈر اسلام آباد تھے۔ اسرائیل نے اس کیلئے ایئر فورس کے ایک بھگوڑے پائلٹ کو استعمال کیا۔ اکرم اعوان سرگودھا سے تعلق رکھتا تھا‘ اُس کو لندن سے اٹھا کر تل ابیب لے جایا گیا اور وہاں اس کی برین واشنگ کی گئی اور ٹریننگ کے بعد اس کو پاکستان میں لانچ کیا گیا۔ میجر عامر کہتے ہیں کہ میں اُن دنوں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جو موساد کے ایک چیف نے لکھی تھی۔ چاڈ آپریشن میں اسرائیل نے ارجنٹائن کے سفارتخانے کو استعمال کیا تھا‘ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ پاکستان میں اسرائیل کا کوئی سفارتخانہ نہیں‘ کہیں وہ یہاں پر بھی کوئی ایسی گیم تو نہیں کر رہے۔ میں نے جب ارجنٹائن کے سفارتخانے کی انفارمیشن نکالی تو معلوم ہوا کہ یہاں دو ڈپلومیٹ ہیں‘ ایک سفیر اور دوسرا فرسٹ سیکرٹری۔ فرسٹ سیکر ٹری کا نام لوسٹن تھا۔ میں نے اسے انڈر سرویلنس رکھ لیا۔ اسی دوران میں اڈیالہ جیل پہنچا اور وہاں ایئر فورس کے ایک پائلٹ سے ملا جس کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ لوسٹن نے‘ جو یہودی تھا‘ اسی دوران امریکی سفارتخانے میں دفاعی اتاشی کرنل ڈاکن سے ملاقات کی۔ ٹائم میگزین کا بیورو چیف راج ایس ماندرو بھی اس وقت اسلام آباد میں تھا۔ جب وہ پائلٹ اڈیالہ جیل سے رہا ہوا تو اس کے پیچھے ایک آدمی لگا دیا گیا۔ میں اُس سے ایک ایسا افغان بن کر ملا جو پاکستان مخالف تھا۔ اس کا اعتماد بحال کرنے کیلئے میں نے چکلالہ ایئر بیس کے حوالے سے اسے کچھ ڈِس انفارمیشن دی۔ وہ ایک مکار شخص تھا جو آئی ایس آئی کی گاڑیوں کو بھی پہنچاتا تھا۔ اس نے بتایا کہ عراق کے ایٹمی پلانٹ کی طرز پر اب پاکستان کے کہوٹہ پلانٹ پر حملہ ہو گا‘ یہ حملہ بھارت سے ہو گا اور اسرائیلی جہاز اس مقصد کیلئے بھارت پہنچ چکے ہیں۔ اکرم اعوان نے بھارت سے اسرائیلی پائلٹ کے ساتھ کو پائلٹ بن کر آنا تھا اور تمام نقشے اس کے پاس تھے۔ اس کا آسٹریلوی سفارتخانے سے بھی رابطہ تھا۔ اس کو گرفتار کر کے ایم آئی کے حوالے کیا گیا۔ اس منظم سازش میں را‘ موساد اور سی آئی اے ملوث تھیں۔ میجر عامر نے اپنی ذہانت سے اسرائیل کی اس خوفناک سازش کو سبوتاژ کیا۔ میجر عامر نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایس آئی نے سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘ الذوالفقار کی کمر کیسے توڑی‘ جس کو روس‘ شام‘ لیبیا‘ افغانستان اور بھارت جیسے ممالک کی سپورٹ حاصل تھی۔ الذوالفقار کے 15 کیمپ افغانستان اور 25 بھارت میں تھے۔ جہادِ افغانستان کے دوران افغان انٹیلی جنس ایجنسی خاد پاکستان میں سرگرم تھی اور انڈر کور ایجنٹس کا چیف‘ جس کا نام وکیل تھا‘ اس سے میجر عامر نے دوستی بڑھائی۔ وہ روس کے سخت خلاف تھا اور پشتو بولتا تھا۔ میجر عامر نے بتایا کہ کیسے انہوں نے مسلسل کوشش کر کے خاد کے چیف کی پختون غیرت اور خواتین کی عزت کی حفاظت کا جذبہ ابھارا۔ میجر عامر اپنے اکلوتے بیٹے کو اس کے پاس یہ یقین دلانے کیلئے لے گئے کہ میں اپنی بات اور پیشکش میں سچا ہوں۔ ایسے کئی کارنامے میجر عامر کے کریڈٹ پر ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وطن کے ایسے قابلِ فخر بیٹے کے خلاف گزشتہ کئی دنوں سے مہم چلائی جا رہی ہے جو دراصل دشمن کا کام آسان کر رہی ہے۔ یہ خفیہ ایجنسی ہمارا سر مایہ اور دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہے۔ اس پر الزام تراشیاں کر کے ہم اپنی قومی سالمیت کے درپے کیوں ہو گئے ہیں؟