سانحہ 71ء دہرانے کی سازش

مارے مشرقی بازو کو ہم سے جدا ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر کیا دورِ حاضر کے حکمرانوں نے اس سانحہ سے کوئی سبق بھی سیکھا ہے یا نہیں؟ جو قومیں ماضی سے سبق نہیں سیکھتیں اور بار بار وہی غلطیاں دہراتی ہیں‘ ان کا حشر وہی ہوتا ہے جو 1971ء میں ہمارا ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ اس تباہی و بربادی کا لامتناہی سلسلہ رکا نہیں بلکہ آج وہی گھناؤنا کھیل بلوچستان میں کھیلا جا رہا ہے۔ یہ کھیل کون کھیل کر رہا ہے‘ کیوں کھیل رہا ہے‘ کیا وہ دشمن ہم سے زیادہ طاقتور ہے؟ نہیں! بلکہ ہماری اندرونی سازشوں اور قوم میں چھپے میر جعفروں نے اس ملک کو معاشی‘ سماجی‘ سیاسی اور نظریاتی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس آشیانے کو نقصان پہنچانے میں اندر کے لوگوں کا ہاتھ ہے‘اب سوال یہ ہے کہ وہ اندر کے لوگ کون ہیں؟
بھارت نے 1971ء کی سازش رچا کر پاکستان کو کمزور کرنے کا مقصد حاصل کر لیا تھا اور اسی سرشاری میں اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بڑ ماری کہ آج ہم نے نظریۂ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت کی پاکستان دشمنی کا پرنالہ آج بھی وہیں موجود ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مکتی باہنی کا ایک بھی دہشت گرد اور حامی سقوطِ ڈھاکہ پر جشن منانے کے لیے نہ بچتا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج بلوچستان دشمن کے نشانے پر ہے‘ ملک بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی بے قابو ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال پر بیرونی ہاتھ سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ 1971ء کی سازش میں بھی بیرونی ہاتھ ملوث تھا اور آج بھی ہے۔ اگست 2016ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے اندرونی معاملات پر بات کرتے ہوئے سرخ لکیر عبور کی تھی جو انڈیا کی بلوچستان میں مداخلت کا واضح ثبوت تھا۔ گجرات کے قصائی نریندر مودی نے سینہ ٹھونک کر مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ افسوس کہ پاکستان میں آج بھی کچھ لوگ اور جماعتیں شیخ مجیب الرحمن کو اپنا لیڈر اور محبِ وطن سمجھتی ہیں اور اس کی روش پر چلتے ہوئے ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف صف آرا ہیں۔
جب مشرقی پاکستان جدا ہوا‘ تو ملک کی معاشی صورتحال بہتر تھی مگر دونوں حصوں کے درمیان دوریاں بڑھتی گئیں۔ مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان 1400کلومیٹر بھارتی سرزمین حائل ہونے کی وجہ سے انتظامی مسائل اپنی جگہ تھے لیکن 1971ء میں اس فاصلے نے بھارت کی پاکستان کو دولخت کرنے کی گھناؤنی سازش کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں حالات تب سے مختلف ہیں‘ تاہم موجودہ حالات میں قوم ہم آہنگی کے بجائے تقسیم کی جانب بڑھتی جا رہی ہے۔ کس طرح پی ٹی آئی اور وفاق کے مابین تقسیم پیدا کی جا رہی ہے‘ 26نومبر کے حالیہ ڈی چوک احتجاج سے اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور اس میں کچھ بھی جانچنا ایک مشکل عمل ہے۔ آج فیک نیوز کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ملک میں ایکس سمیت دیگر الفا بیٹس پر پابندی عائد ہے‘ جیسا کہ VPN۔ یہ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ عوام میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مشرقی پاکستان میں فوج پر پنجابی کا لیبل لگایا جاتا رہا‘ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ پاکستان کو ‘پنجابستان ‘ کہا جا رہا ہے۔ ملک میں مخلوط حکومت پر مقتدرہ کی غلامی کا الزام ہے۔ اس وقت تمام حلقوں کی نظریں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر)فیض حمید کے کورٹ مارشل پر لگی ہوئی ہیں‘ جن پر آئی ایس پی آر کے مطابق فردِ جرم عائد ہوچکی ہے۔ یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ فوج اپنے ایک بڑے افسر کا احتساب کرکے ایک مثال قائم کر رہی ہے‘ بلاشبہ اس سے بہت سے دیگر اداروں کا بھی قبلہ درست ہو جائے گا۔
دوسری جانب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا آج ایک اور مکتی باہنی پروان چڑھ رہی ہے تو اس کا جواب ہمیں پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست اور احتجاجی مظاہروں سے مل جاتا ہے۔ بے شک دونوں کیسز ایک جیسے نہیں ہیں۔اصولی طور پر مکتی باہنی کا ایک بھی حامی سقوطِ ڈھاکہ پر جشن منانے کے لیے نہیں بچنا چاہیے تھا۔ ”جو مشرقی پاکستان جائے گا‘ اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ یہ کس نے کہا تھا؟ تب عسکری قیادت پر بے دریغ الزامات لگائے جاتے رہے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی فوجی نہیں‘ سیاسی ناکامی تھی۔ 1971ء کی تاریخ شاہد ہے کہ پاک فوج نامساعد حالات اور بے شمار چیلنجز کے باجود جوان مردی سے لڑی۔ تب کی عسکری قیادت پر 30لاکھ بنگالیوں کے قتل کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا‘ یہ الزام اتنا بوگس تھا کہ بنگلہ دیشی صحافیوں نے ہی اس کی تردید کر دی۔ ڈھاکہ کے انگریزی اخبار ”مارننگ سن‘‘ کے ایڈیٹر نور الاسلام‘ جو پاکستان کے حامی نہیں تھے‘ ان کا کہنا تھا کہ تین ماہ میں 30لاکھ افرادکی ہلاکت یقینی بنانے کیلئے روزانہ گیارہ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑے گا‘ جبکہ ایسا نہیں تھا۔
گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان میں بھی اسی قسم کا زہریلا پروپیگنڈا جاری ہے کہ پشتون پنجابی اتحاد ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ بھارت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے ٹی ٹی پی اور بلوچ کالعدم تنظیموں کو فنڈنگ اور مسلح کررہا ہے۔ سی پیک کی تکمیل کو روکنے کے لیے بھارت نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے بھی اس مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت فغانستان میں دہشت گردی کے 66تربیتی کیمپ چلاتا رہا ہے‘ 21دہشت گرد کیمپ بھارتی صوبے راجستھان میں بھی تھے۔دشمن کی ان سازشوں کے باوجود ملک کا سیاسی منظر نامہ عدم استحکام سے دوچار ہے اور ہر طرف گومگو کی کیفیت ہے۔ ایک طرف شرپسند عناصر اپنے مذموم عزائم سے ملک کو سیاسی و معاشی طور پر غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف پی ٹی آئی ہے جو پہلے 9مئی کے سانحات‘ حال ہی میں 26نومبر کو ڈی چوک میں ہونے والے احتجاج اور اب سول نافرمانی تحریک کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ اس جماعت کے حامی احتجاجوں میں سرکاری املاک اور اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے احتجاج میں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ افغان باشندے بھی شامل ہوجاتے ہیں‘ 26نومبر کے احتجاج سے بھی کئی افغانوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس جماعت کے سوشل میڈیا واریئراداروں اور اعلیٰ شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف زہر اگلنا کوئی قابلِ تعریف عمل نہیں ہے۔ لیکن یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا‘ اب بھی سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے۔ پاک فوج کے جوان دفاع وطن کی خاطر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں‘ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے بجائے ان کی یادگاروں کی بے حرمتی قابلِ مذمت ہے۔ افسوس کہ نو مئی کے روز عسکری تنصیبات پر حملوں اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی پر اکسانے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ابھی تک کوئی فیصلہ کن کارروائی عمل میں نہیں آسکی۔ 9 مئی میں ملوث 68 ملزمان کی فوجی عدالت میں ٹرائل کی اجازت خوش آئند ہے۔ ملکی املاک پر حملہ آور ہونے والے اقتدار میں آ کر ملک کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟ ملک میں جو سیاسی عدم استحکام ہے‘ اس کی بڑی وجہ سیاستدانوں کا بے جا شور و غوغا ہے جو اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو چھپانے کیلئے مقتدرہ کی مداخلت کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں سیاسی اور جمہوری عمل متنازع ہو چکا ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔

Add Comment